Tuesday, June 18, 2019

بول پر ذرا پیار سے: آپ سوشل میڈیا پر جو بھی پوسٹ کریں گے اس کے ذمہ دار ہوں گے

گذشتہ چند دنوں سے پاکستانی ٹوئٹر پر بینک الفلاح کے ایک سابق کارکن کے حوالے سے ایک بحث جاری ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی اہم معاملے کی اہمیت سامنے آئی ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس کے بارے میں شاید پاکستان میں کمپنیاں اور ادارے اتنی توجہ نہیں دیتے۔
مگر معاملہ یہاں نہیں رکا اور بینک کے برطرف شدہ اہلکار کے باقی ساتھی ٹوئٹر کا استعمال کر کے اس پر اپنی رائِے دے رہے ہیں۔ اور عمومی طور پر اس معاملے پر رائے انتہائی منقسم ہے جس کی وجہ سے مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
دنیا بھر میں کمپنیاں اور ادارے گذشتہ ایک دہائی سے سوشل میڈیا کے حوالے سے اپنی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں اور اس میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
ہر روز مختلف سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں گالیاں، اخلاق باختہ کمنٹس اور پوسٹس دیکھنے اور ان سے نمٹنے کے بعد ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ جو زبان بینک کے اہلکار نے اپنی ٹویٹس میں استعمال کی وہ سوشل میڈیا پر بہت عام ہے۔ ماں بہن کی گالی یا اس کا مخفف تو اب عام زبان کا حصہ بن چکا ہے جس پر کسی کو حیرت ہی نہیں ہوتی۔
چند دن قبل ایک صاحب نے اسی قسم کی ایک پوسٹ شیئر کی اور جب اس پر اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں منافقت نہیں کر سکتا میں یہی ہوں ایک گرے شخصیت کا مالک۔

کیا آپ کے ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ذاتی ہیں؟

اس کا سب سے سادہ اور آسان جواب یہ ہے کہ اگر آپ کی کمپنی کی سوشل میڈیا پالیسی ہے تو اس کے مطابق آپ کا اکاؤنٹ ریگولیٹ ہو گا۔
بہت معاملات میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ جی آپ نے ٹھیک سنا کہ آپ کا ذاتی اکاؤنٹ آپ کا اتنا بھی ذاتی نہیں ہے۔
تو آپ کہیں گے کہ میں نے یہ نہیں لکھا کہ میں کہاں کام کرتا ہوں۔
اس کا جواب بہت سادہ سا ہے کہ اس دور میں یہ پتا چلانا اتنا مشکل نہیں ہے کہ کون کہاں کام کرتا ہے۔ مثلاً بینک کے اہلکار کے بارے میں یہ پتا چلانا مشکل نہیں تھا کہ وہ بینک الفلاح میں کام کرتے ہیں اور کس عہدے پر ہیں۔ اسی طرح نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک طالبعلم کے بارے میں بھی پتا چلانا مشکل نہیں تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ دنیا کی کئی کمپنیاں، خصوصاً ایسی کمپنیاں جو سہولیات کے شعبے میں کام کرتی ہیں یا عوامی خدمت کے کام میں شامل ہیں ان میں سوشل میڈیا پر طرزِ عمل کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔
ملازمت کے حصول کے کام میں سوشل میڈیا کی پروفائل چیک کی جاتی ہے اور ملازمت کے بعد سوشل میڈیا پر پوسٹس پر نظر رکھی جاتی ہے۔ امریکی ویزا کے حصول کے لیے اب یہ ایک شرط ہے کہ آپ اپنے ٹوئٹر اور فیس بُک اکاؤنٹ کے بارے میں بتائیں۔ اسی طرح پاکستان کی مسلح افواج نے بھی ذاتی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے حوالے سے پالیسی جاری کی۔
تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کا طرز عمل انتہائی اہم ہے۔ مگر یہاں معاملہ اس سے بھی آگے کا ہے جیسا کہ اوپر دی گئی دونوں مثالوں میں واضح ہے۔ یعنی آپ ایک گفتگو میں نہیں بلکہ اجنبی شخصیات کو ٹرول کرنے کے مقصد سے ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں۔ یا غیر خواتین کو ریپ کی دھمکیاں دیتے ہیں یا کہتے ہیں کہ ان کا ریپ کیا جانا چاہیے۔
دوسری جانب بینک الفلاح نے اپنے ملازم کو برطرف کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے اپنے پریس ریلیز میں لکھا ہے کہ بینک 'ذاتی حملوں اور کسی کے خلاف بدزبانی کے بارے میں زیرو برداشت کی پالیسی رکھتا ہے۔ اور بینک ضوابط پر سختی سے عملدرآمد کرتا ہے اور اس واقعے کو اس کی سنگین خلاف ورزی سمجھتا ہے۔'
کارپوریٹ امور کے ماہر وکیل حامد جلال کا کہنا تھا کہ 'اس معاملے میں ملازمت لیبر کا معاملہ نہیں ہے بلکہ کنٹریکٹ کا معاملہ ہے۔ کنٹریکٹ پر ملازمت کو کنٹریکٹ کی شرائط کے مطابق ختم کیا جا سکتا ہے۔ اور اس معاملے میں شکایت کرنے والے صحافی اس میں پارٹی نہیں ہیں۔ بلکہ ملازم کا طرزِ عمل کمپنی کے ڈسپلنری قواعد اور قوانین کے تابع ہے۔ اور اگر کمپنی نے ان کے تحت کارروائی کی ہے اور پراسیس پر عمل کیا ہے تو پھر کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔'
اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والی انسانی حقوق کی کارکن فریحہ عزیز نے کہا کہ 'سوشل میڈیا پر ان دنوں جو بھی بات ہو رہی اسے بہت احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی آپ بے شک کہیں کہ ری ٹویٹ کا مطلب اس بات کو ترویج دینا نہیں ہے مگر آپ پھر بھی ذمہ دار ہیں۔ اور یہ بات آپ سے جڑی رہے گی۔ جو بھی استعمال ہو رہا ہے۔'
کمپنیوں کی سوشل میڈیا پالیسی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'پالیسی بننی چاہیے مگر جب بھی کسی کوڈ یا پالیسی کی بات ہوتی ہے تو بہت سے مسائل ہیں۔ کیونکہ اگر ہم دیکھیں کہ ادارے نے پالیسی بنا لی مگر ملازم ادارے کی کسی بات پر اعتراض کرتا ہے تو وہ زیرِ عتاب آ سکتا ہے۔ تو پالیسی یا کوڈ سے ذاتی اظہار کا حق متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ اور یہ بھی کہ آپ ایک حق کے تحفظ کے چکر میں دوسرے حقوق کو متاثر نہ کریں۔ تو اس بارے میں پراسیس ہونا چاہیے۔'
بینک الفلاح کے ایک اہلکار نے ڈان اخبار سے منسلک صحافی حسن زیدی کو ٹیگ کر کے ان کی ٹویٹ کا جواب لکھا جو عمران خان کی تقریر کے بارے میں تھی۔ اس جواب میں بینک کے اہلکار نے حسن کے ساتھ انتہائی ’نازیبا زبان‘ استعمال کی جس کے نتیجے میں حسن نے نہ صرف سوشل میڈیا پر اس بارے میں تبصرے کیے بلکہ بینک الفلاح سے بھی رابطہ کیا۔
بینک الفلاح نے گذشتہ روز اپنے اہلکار کو بینک کی پالیسی کی خلاف ورزی پر ملازمت سے برطرف کر دیا۔

Tuesday, June 11, 2019

前联合国气候官员:只有去碳化才能保持竞争力

一年前,美国总统特朗普(Trump)宣布将带领美国退出《巴黎气候协定》。而一年后的今天,全球应对气候变化的势头依旧强劲,联合国气候变化框架公约(UNFCCC)前秘书长克里斯蒂娜·菲格雷斯说道

她告诉中外对话:“坦率地讲,从经济角度来说,我认为美国退出《巴黎气候协定》不会产生非常大的影响。因为无论从技术还是从财政的角度来看,去碳化已成定局。虽然进展可能不会太快,但的确已经是不可改变的了。这是一条不可逆转、势不可挡的路。”

近年来,中国已经越来越意识到采取强有力的气候行动所带来的好处。中国的国内政策,以及与其他国家建立的伙伴关系都清楚地表明了这一点

菲格雷斯表示:“中美关系对达成《巴黎气候协定》至关重要。而如今协定已经成功缔结,我认为美中关系对中国来说在这一层面上的意义可能没那么大了。中国将从本国利益出发,继续坚持走自己的环保道路。”

她表示,中国主要看重的是在公众健康效益和经济竞争力方面带来的好处

菲格雷斯指出:“中国的空气污染‘举世闻名’。但民间的行动和由此引发的一场大气污染治理行运动显示出该议题在中国得到的重视。而更重要的是,政府也开始正视这个问题,并逐步关停城市中的燃煤电厂。”

“中国领导人已经明确表示,要带领世界朝着‘生态文明’的方向前进。要想实现这个目标,就必须实现经济和金融结构的绿色转型。”

“中国想成为全球太阳能技术的领导者,不仅是国内安装量第一,在产品和技术出口方面也要拔得头筹。电池产业也是如此。目前,中国已经投资了5到7家超大型电池厂,因为中国意识到这将是一个规模巨大的市场。” 菲格雷斯说道

但是,中国想要在未来几十年限制和削减排放仍然是一个前所未有的挑战。一份研究显示,由于经济增长强劲,预计今年中国的排放量将出现增长

由于特朗普政府采取气候变化行动前景渺茫,菲格雷斯将希望寄托在了企业、城市和州层面的非国家行为主体上。

菲格雷斯表示:“如今人们将大量的注意力都转移到了城市、省和州上,原因有几个。首先,全球气候变化行动国家层面上所需要做的工作基本上已经包括在《巴黎气候协定》中。”

这是一个只有国家政府之间通过谈判才能达成的法律框架,地方政府不能。如今,已经进入到了落实和深入探讨阶段,这就需要各级政府、公共部门和私有企业的密切参与。”

“所以,这是政策贯彻到地方的一个自然而然的过程,日常决策是在地方政府层面上作出的。毫无疑问,这才是现在对话的重点,也就是我们支持9月召开的全球气候行动峰会(Global Climate Action Summit)的主要原因。”

“为了让各国政府获得必要的信心,能够在明年重回联合国谈判桌,也为了能够提高他们的承诺(也就是《巴黎气候协定》对这些国家的要求);他们必须每隔4年就进行一次谈判,而下一次谈判是在2020年。在明年进行《巴黎气候协定》工作回顾之前,他们需要最终确定兑现自己承诺的具体程序。”


巴黎档案》(Profiles of Paris)于531日发布。这是一部国际领导人及社会变革者就《巴黎气候协定》(Paris Agreement落实情况及这一过程中经验教训的观点集合